رخ بدلتے ہچکچاتے تھے کہ ڈر ایسا بھی تھا
ہم ہوا کے ساتھ چلتے تھے مگر ایسا بھی تھا
لوٹ آتی تھیں کئی سابق پتوں کی چٹھیاں
گھر بدل دیتے تھے باشندے مگر ایسا بھی تھا
وہ کسی کا بھی نہ تھا لیکن تھا سب کا معتبر
کوئی کیا جانے کہ اس میں اک ہنر ایسا بھی تھا
پاؤں آئندہ کی جانب سر گزشتہ کی طرف
یوں بھی چلتے تھے مسافر اک سفر ایسا بھی تھا
تولتا تھا اک کو اک اشیائے مصرف کی طرح
دوستی تھی اور انداز نظر ایسا بھی تھا
خود سے غافل ہو کے جو پل بھر نہ خود کو سوچتا
اس بھری بستی میں کوئی بے خبر ایسا بھی تھا
ہر نئی رت میں بدل جاتی تھی تختی نام کی
جس کو ہم اپنا سمجھتے کوئی گھر ایسا بھی تھا
غزل
رخ بدلتے ہچکچاتے تھے کہ ڈر ایسا بھی تھا
نشتر خانقاہی