EN हिंदी
رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے | شیح شیری
ruke ruke se qadam ruk ke bar bar chale

غزل

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے

گلزار

;

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے
قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے

اٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر
چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اتار چلے

نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی
نظر میں دھول جگر میں لیے غبار چلے

سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے
تھی رات رات کی یہ زندگی گزار چلے

ملی ہے شمع سے یہ رسم عاشقی ہم کو
گناہ ہاتھ پہ لے کر گناہ گار چلے