رکا تو راز کھلا کب سے اپنے گھر میں تھا
کہ میرا گھر تو مری حالت سفر میں تھا
بہت عجیب سا دکھ تھا جو تو نے مجھ کو دیا
کہ اک تبسم مخفی بھی چشم تر میں تھا
عراق و شام کے پردے میں بے نقاب ہوا
تمام دہر کا دکھ ایک ننگے سر میں تھا
قدم عروس وفا کے کہاں کہاں پہنچے
حنا کا رنگ ستاروں کی رہ گزر میں تھا
بس ایک جرأت رندانہ عرصۂ شب میں
پلک جھپکتے ہی میں عرصۂ سحر میں تھا
ہزار رنگ تھے اس کے ہزار پہلو تھے
جدا جدا وہ جھلکتا نظر نظر میں تھا
بہ فیض بار ملامت جھکی کمر میری
ہرا شجر تھا مگر شہر بے ثمر میں تھا
غزل
رکا تو راز کھلا کب سے اپنے گھر میں تھا
شجاعت علی راہی