روز شام ہوتی ہے روز ہم سنورتے ہیں
پھول سیج کے یوں ہی سوکھتے بکھرتے ہیں
دل کو توڑنے والے تو کہیں نہ رسوا ہو
خیر تیرے دامن کی چشم تر سے ڈرتے ہیں
صبح ٹوٹ جاتا ہے آئینہ تصور کا
رات بھر ستاروں سے اپنی مانگ بھرتے ہیں
زور اور کیا چلتا فصل گل میں کیا کرتے
بس یہی کہ دامن کو تار تار کرتے ہیں
یا کبھی یہ حالت تھی زخم دل سے ڈرتے تھے
اور اب یہ عالم ہے چارہ گر سے ڈرتے ہیں
یوں ترے تصور میں اشکبار ہیں آنکھیں
جیسے شبنمستاں میں پھول رقص کرتے ہیں
خوں ہمیں رلاتی ہے راہ کی تھکن بانوؔ
جب ہماری نظروں سے کارواں گزرتے ہیں
غزل
روز شام ہوتی ہے روز ہم سنورتے ہیں
شکیلہ بانو