EN हिंदी
روز و شب اور نئے ارض و سما مانگے ہے | شیح شیری
roz-o-shab aur nae arz-o-sama mange hai

غزل

روز و شب اور نئے ارض و سما مانگے ہے

مہندر پرتاپ چاند

;

روز و شب اور نئے ارض و سما مانگے ہے
آج کا دور نئی آب و ہوا مانگے ہے

اپنی بے چارگی کی یوں تو ہے احساس بہت
پھر بھی دل تجھ سے وہی عہد وفا مانگے ہے

دھوپ میں جھلسی ہوئی شاخ پہ افسردہ کلی
پھول بننے کے لیے دست صبا مانگے ہے

ہر کوئی یوں تو ہے بر گشتۂ حالات مگر
ہر کوئی جینے کی ہر لحظہ دعا مانگے ہے

آہ وہ والد بے زر کی جواں بیٹی کے
سونے ہاتھوں کے لیے رنگ حنا مانگے ہے

یہ نئے طور یہ انداز مجھے راس نہیں
میری تہذیب وہی شرم و حیا مانگے ہے

سینکڑوں نعمتوں سے اس نے نوازا ہے تجھے
اور اب چاندؔ تو اللہ سے کیا مانگے ہے