EN हिंदी
روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا | شیح شیری
roz KHwabon mein nae rang bhara karta tha

غزل

روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا

نظیر باقری

;

روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا
کون تھا جو مری آنکھوں میں رہا کرتا تھا

انگلیاں کاٹ کے وہ اپنے لہو سے اکثر
پھول پتوں پہ مرا نام لکھا کرتا تھا

کیسا قاتل تھا جو ہاتھوں میں لیے تھا خنجر
چپکے چپکے مرے جینے کی دعا کرتا تھا

ہائے قسمت کہ یہی چھوڑ کے جانے والا
عمر بھر ساتھ نباہیں گے کہا کرتا تھا

پھول سا جسم سلگتے ہوئے صندل کی طرح
دل کے مندر میں سر شام جلا کرتا تھا

وہ جو اک لمحہ کسی یاد میں کٹتا تھا نظیرؔ
دل کے جلتے ہوئے شعلوں کو ہوا کرتا تھا