EN हिंदी
روز کھلنے کی ادا بھی تو نہیں آتی ہے | شیح شیری
roz khulne ki ada bhi to nahin aati hai

غزل

روز کھلنے کی ادا بھی تو نہیں آتی ہے

شاہد لطیف

;

روز کھلنے کی ادا بھی تو نہیں آتی ہے
اس طرف باد صبا بھی تو نہیں آتی ہے

سوچتا ہوں کہ ملاقاتوں کو محدود کروں
ان دریچوں سے ہوا بھی تو نہیں آتی ہے

اب طریقہ ہے یہی موند لیں اپنی آنکھیں
ورنہ دنیا کو حیا بھی تو نہیں آتی ہے

اس کی قسمت میں ہیں برسات کے سارے تیور
اپنے حصے میں گھٹا بھی تو نہیں آتی ہے