روز اک راستہ بدلتا ہے
میرا دل بے خودی میں چلتا ہے
آندھیاں ہی اکھاڑتی ہیں اسے
آندھیوں میں ہی پیڑ پلتا ہے
باغ نے کس سے دشمنی کر لی
کون ہر پھول کو مسلتا ہے
جانتا ہی نہیں یہاں کوئی
کس بہانے سے دل بہلتا ہے
پار ہو جائے دشت ہی سیماؔ
نیند میں اتنا کون چلتا ہے
غزل
روز اک راستہ بدلتا ہے
سیما شرما میرٹھی