روز اک خواب مسلسل اور میں
رات بھر یادوں کا جنگل اور میں
ہاتھ کوئی بھی سہارے کو نہیں
پاؤں کے نیچے ہے دلدل اور میں
سوچتا ہوں شب گزاروں اب کہاں
گھر کا دروازہ مقفل اور میں
ہر قدم تاریکیاں ہیں ہم رکاب
اب کوئی جگنو نہ مشعل اور میں
ہے ہر اک پل خوف رقصاں موت کا
چار سو ہے شور مقتل اور میں
شعر کہنا اب رئیسؔ آساں نہیں
سامنے اک چہرہ مہمل اور میں

غزل
روز اک خواب مسلسل اور میں
رئیس الدین رئیس