EN हिंदी
روز ہوا میں اڑنے کی فرمائش ہے | شیح شیری
roz hawa mein uDne ki farmaish hai

غزل

روز ہوا میں اڑنے کی فرمائش ہے

سعید قیس

;

روز ہوا میں اڑنے کی فرمائش ہے
یہ میری مٹی میں کیسی خواہش ہے

چہرہ چہرہ غم ہے اپنے منظر میں
اور آنکھوں کے پیچھے ایک نمائش ہے

اک تیری آواز نہیں آتی ورنہ
چھوٹے سے اس گھر میں ہر آسائش ہے

اب کے ساون آئے تو تم آ جانا
سارے بستی والوں کی فرمائش ہے

اک دن شیش محل سے باہر بھی دیکھو
خیمے کی بھی اپنی ایک رہائش ہے

ان رنگوں کو سورج کھا جاتا ہے قیسؔ
جن رنگوں میں تھوڑی سی آلائش ہے