روز وحشت ہے مرے شہر میں ویرانی کی
اب کوئی بات نہیں بات پریشانی کی
میرے دریا کبھی دریا بھی ہوا کرتے تھے
اب بھی آواز سی آتی ہے مجھے پانی کی
آئنہ خانے کے باہر وہ مجھے پوچھتے ہیں
آئنہ خانے میں کیا بات تھی حیرانی کی
اب غزالاں سے کہو چھپ کے کہیں بیٹھ رہیں
آمد آمد ہے کسی غول بیابانی کی
ہم کھلے گھر کے مکینوں کی یہی عادت ہے
ہم نہ دربان ہوئے اور نہ دربانی کی
یاد کر لینا بہتر کی کہانی باقیؔ
جنگ چھڑ جائے کسی وقت اگر پانی کی
غزل
روز وحشت ہے مرے شہر میں ویرانی کی
باقی احمد پوری