EN हिंदी
روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا | شیح شیری
roz-e-maulud se sath apne hua gham paida

غزل

روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا

حیدر علی آتش

;

روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا

ہوں میں وہ نخل کہ ہر شاخ مری آرا ہے
ہوں میں وہ شاخ کہ ہوں برگ تبردم پیدا

میں جو روتا ہوں مرے زخم جگر ہنستے ہیں
شادی و غم سے کیا ہے مجھے توام پیدا

چاہنے والے ہزاروں نئے موجود ہوئے
خط نے اس گل کے کیا اور ہی عالم پیدا

درد سر میں ہو کسی کے تو مرے دل میں ہو درد
واسطے میرے ہوا ہے غم عالم پیدا

زخم خنداں ہیں بعینہ لب خنداں اپنے
شادمانی میں ہے یاں حالت ماتم پیدا

آسماں شوق سے تلواروں کا مینہ برسا دے
مہ نو نے ترے ابرو کا کیا خم پیدا

کام اپنا نہ ہوا جب کجیٔ ابرو سے
گیسوئے یار ہوئے درہم و برہم پیدا

شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرۂ شبنم پیدا

چپ رہو دور کرو منہ نہ مرا کھلواؤ
غافلو زخم زباں کا نہیں مرہم پیدا

قلزم فکر میں ہر چند لگائے غوطے
در مضموں کوئی یاروں سے ہوا کم پیدا

دوست ہی دشمن جاں ہو گیا اپنا آتشؔ
نوش داروں نے کیا یاں اثر سم پیدا