روز دہرائیں گے جب شام و سحر کی تاریخ
کیسے بدلے گی بھلا آپ کے گھر کی تاریخ
ان فضاؤں میں کوئی بڑھ کے دکھائے تو کمال
خود بہ خود ہوگی رقم بازوئے پر کی تاریخ
اپنے بچوں کو نہ دیں پائے کبھی کوئی خوشی
صرف ہم لکھتے رہے اپنے ہنر کی تاریخ
لوٹنے والے کبھی لوٹ نہ پائیں گے مجھے
میں بتا دوں گا اگر رخت سفر کی تاریخ
اپنی تاریخ پہ اس درجہ بھروسا ہیں ہمیں
ہم نہ دیکھیں گے ادھر اور ادھر کی تاریخ
لاکھ بے یار و مددگار پھرے ساحل پر
قید رہتی ہے صدف میں ہی گہر کی تاریخ
میرؔ و غالبؔ جنہیں کہتا ہے زمانہ شاہدؔ
ان کے ہر شعر میں ہے فکر و نظر کی تاریخ
غزل
روز دہرائیں گے جب شام و سحر کی تاریخ
شاہد جمال