EN हिंदी
روتی ہوئی آنکھوں کا وہ منظر نہیں دیکھا | شیح شیری
roti hui aankhon ka wo manzar nahin dekha

غزل

روتی ہوئی آنکھوں کا وہ منظر نہیں دیکھا

فخر عباس

;

روتی ہوئی آنکھوں کا وہ منظر نہیں دیکھا
چھوڑ آئے تو پھر ہم نے پلٹ کر نہیں دیکھا

کچھ وہ بھی سمجھنے کا تکلف نہیں کرتے
کچھ ہم نے زباں سے کبھی کہہ کر نہیں دیکھا

شاید اسی کم یاب کو کہتے ہیں تبسم
ہم نے ترے چہرے پہ جو اکثر نہیں دیکھا

ہم حسن بہ انداز حسیں دیکھنے والے
سچ بات ہے تجھ سا کوئی پیکر نہیں دیکھا

اس زخم کا ظالم کو تو احساس بہت ہے
جس زخم کو ہم نے کبھی گن کر نہیں دیکھا

ہم کو تو سر حشر تھی اک اور کسک بھی
جاتے ہوئے ہم نے رخ دلبر نہیں دیکھا