روتے روتے آنکھ ہنسے تو ہنسنے دو
ہونٹوں پر مسکان کو زندہ رہنے دو
خوشیوں کی رت پر بھی ان کے پہرے ہیں
بے موسم کے پھول کھلیں تو کھلنے دو
کتنا گہرا سناٹا ہے ساحل پر
لہروں سے طوفان اٹھے تو اٹھنے دو
جانے کب وہ ایک مسافر آ پہنچے
چوکھٹ پر اک دیپ جلا کر جلنے دو
جن خوابوں میں اس کی خوشبو پھیلی ہے
ان خوابوں کو دل میں زندہ رہنے دو
لوگوں سے کہہ دو امیدیں زندہ ہیں
قیصرؔ آنسو پلکوں سے مت گرنے دو
غزل
روتے روتے آنکھ ہنسے تو ہنسنے دو
قیصر عباس