EN हिंदी
روز جو مرتا ہے اس کو آدمی لکھو کبھی | شیح شیری
rose jo marta hai isko aadmi likkho kabhi

غزل

روز جو مرتا ہے اس کو آدمی لکھو کبھی

امین راحت چغتائی

;

روز جو مرتا ہے اس کو آدمی لکھو کبھی
تیرگی کے باب میں بھی روشنی لکھو کبھی

سانس لینا بھی مقدر میں نہیں جس عہد میں
بیٹھ کر اس عہد کی بھی ان کہی لکھو کبھی

درد دل درد جگر کی داستاں لکھی بہت
نان خشک و آب کم کو زندگی لکھو کبھی

مصلحت پر بھی کبھی ہوتے رہے قرباں اصول
ان اصولوں کو بھی ان کی دل لگی لکھو کبھی

گر سمیٹے جا رہے ہو کام جو کرنے کے تھے
اس کو راحتؔ ساعتوں کی آگہی لکھو کبھی