EN हिंदी
روک دے موت کو بھی آنے سے | شیح شیری
rok de maut ko bhi aane se

غزل

روک دے موت کو بھی آنے سے

شرف مجددی

;

روک دے موت کو بھی آنے سے
کون اٹھے تیرے آستانے سے

بجلیاں گرتی ہیں گریں ہم پر
ان کو مطلب ہے مسکرانے سے

ہو مبارک شباب کی دولت
کچھ تو دلوا لئے خزانے سے

دخت رز اور تو کہاں ملتی
کھینچ لائے شراب خانے سے

جان پر بن گئی شرفؔ آخر
کیا ملا ہائے دل لگانے سے