روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں
کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں
ہر اک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہئے
ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں
کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ
وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں
حریف اپنا اگر سر جھکا کے ملتا ہے
تو ہم بھی تیغ کو زیب نیام کرتے ہیں
مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ ایک مدت سے
وہ میرے خانۂ دل میں قیام کرتے ہیں
حقیقتوں کو جنہیں سن کے وجد آ جاتے
کچھ ایسے کام بھی ان کے غلام کرتے ہیں
شراب کم ہو تو نوریؔ بہ نام تشنہ بھی
لہو نچوڑ کے لبریز جام کرتے ہیں

غزل
روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں
مشتاق احمد نوری