رشتے سے محافظ کا خطرہ جو نکل جاتا
منزل پہ بھی آ جاتے نقشہ بھی بدل جاتا
اس جھوٹ کی دلدل سے باہر بھی نکل آتے
دنیا میں بھی سر اٹھتا اور گھر بھی سنبھل جاتا
ہنستے ہوئے بوڑھوں کو قصے کئی یاد آتے
روتے ہوئے بچوں کا رونا بھی بہل جاتا
کیوں اپنے پہاڑوں کے سینوں کو جلاتے ہم
خطرہ تو محبت کے اک پھول سے ٹل جاتا
اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی
ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا
وہ ساتھ نہ دیتا تو وہ داد نہ دیتا تو
یہ لکھنے لکھانے کا جو بھی ہے خلل جاتا
غزل
رشتے سے محافظ کا خطرہ جو نکل جاتا
زہرا نگاہ