رشتۂ دل اسی سے ملتا ہے
جو کوئی سادگی سے ملتا ہے
بیٹھ جاتا ہے دل مرا اکثر
جب کوئی بے بسی سے ملتا ہے
ہائے افسوس میرا رستہ بھی
بے وفا کی گلی سے ملتا ہے
راز دل کیا سنا گیا اس کو
تب سے وہ بے دلی سے ملتا ہے
عمر بھر جو مجھے ستائے گا
ہر گھڑی بے کلی سے ملتا ہے
بھول پانا جسے نہیں ممکن
پھول بن کر ہنسی سے ملتا ہے
جس کے دل میں جگہ نہیں میری
میرا دل بھی اسی سے ملتا ہے
حال دل اب زباں نہیں کہتی
آنکھ کی اس تری سے ملتا ہے
کیا نثارؔ آج کل کوئی لمحہ
آپ سے بھی خوشی سے ملتا ہے

غزل
رشتۂ دل اسی سے ملتا ہے
احمد نثار