رفاقت کی یہ خواہش کہہ رہی ہے
کئی دن سے وہ مجھ میں رہ رہی ہے
پکارا ہے کچھ ایسے نام میرا
رگوں میں روشنی سی بہہ رہی ہے
تعجب ہے کہ میری انگلیوں میں
تری ہاتھوں کی خوشبو رہ رہی ہے
سمجھ پایا نہیں پر سن رہا ہوں
وہ سرگوشی میں کیا کیا کہہ رہی ہے
تری خواہش کسی امکاں کی صورت
ہمیشہ مجھ میں تہہ در تہہ رہی ہے
میں اس کی چھاؤں میں ہوں ترکؔ لیکن
وہ میری دھوپ کیسے سہہ رہی ہے
غزل
رفاقت کی یہ خواہش کہہ رہی ہے
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ