ردائے جان پہ دہرا عذاب بنتا ہوں
میں روز جاگتی آنکھوں میں خواب بنتا ہوں
خیال حسن کی مخمل پہ تار امکاں سے
کبھی گلاب کبھی ماہتاب بنتا ہوں
غبار خاطر پیہم سے بجھ بھی جاؤں اگر
شب سیہ میں کوئی آفتاب بنتا ہوں
لباس شوق تو مدت کا تار تار ہوا
قبائے درد پہ اب پیچ و تاب بنتا ہوں
طلسم زلف کی لہریں ڈبو ہی دیتی ہیں
کنار شام جب موج شراب بنتا ہوں
کبھی میں بام مہ نو پہ ڈالتا ہوں کمند
کبھی میں خیمہ شہر حجاب بنتا ہوں
سلگ اٹھے ہے جو صحرا بھی پائے وحشت سے
تو کارگاہ جنوں پر سحاب بنتا ہوں
جب ایک خواب کا مخمل ہو تار تار ندیمؔ
میں دشت وہم میں پھر اک سراب بنتا ہوں
غزل
ردائے جان پہ دہرا عذاب بنتا ہوں
کامران ندیم