رتیلی کتنی ہوا ہے ارد گرد
ہر نظر اک آئنہ ہے ارد گرد
حسرتوں کی سرزمیں خوں ریز ہے
خواہشوں کی کربلا ہے ارد گرد
اک حقیقت ہیں مری تنہائیاں
ایک احساس خدا ہے ارد گرد
زندگی کچا گھڑا دنیا چناب
تیز رو پانی چلا ہے ارد گرد
کیا خبر کب کون جینا چھوڑ دے
تاک میں کس کی قضا ہے ارد گرد
جتنی بوڑھی ہو گئیں سوچیں مری
اتنا زیادہ بچپنا ہے ارد گرد
دھول ہے بس دھول ذیشاںؔ چار سمت
ایک بے رستہ دشا ہے ارد گرد
غزل
رتیلی کتنی ہوا ہے ارد گرد
ذیشان ساجد