EN हिंदी
ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی | شیح شیری
ret ki surat jaan pyasi thi aankh hamari nam na hui

غزل

ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی

ساقی فاروقی

;

ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
تیری درد گساری سے بھی روح کی الجھن کم نہ ہوئی

شاخ سے ٹوٹ کے بے حرمت ہیں ویسے بھی بے حرمت تھے
ہم گرتے پتوں پہ ملامت کب موسم موسم نہ ہوئی

ناگ پھنی سا شعلہ ہے جو آنکھوں میں لہراتا ہے
رات کبھی ہمدم نہ بنی اور نیند کبھی مرہم نہ ہوئی

اب یادوں کی دھوپ چھاؤں میں پرچھائیں سا پھرتا ہوں
میں نے بچھڑ کر دیکھ لیا ہے دنیا نرم قدم نہ ہوئی

میری صحرا زاد محبت ابر سیہ کو ڈھونڈھتی ہے
ایک جنم کی پیاسی تھی اک بوند سے تازہ دم نہ ہوئی