ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے
اور کچھ تیز ہوئی تشنہ لبی رات گئے
بام و در جاگ اٹھے شوق نے آنکھیں کھولیں
دل کی دہلیز پہ دستک سی ہوئی رات گئے
میرے سینے میں کسی آگ کا جلنا دن بھر
اس کے ہونٹوں پہ وہ ہلکی سی ہنسی رات گئے
اک اسی خواب نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا
نیند کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی رات گئے
فتح پائی ہے سرابوں پہ مرے اشکوں نے
غم نے باندھی ہے کئی بار ندی رات گئے
غزل
ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے
مظفر ابدالی