EN हिंदी
رواںؔ کس کو خبر عنوان آغاز جہاں کیا تھا | شیح شیری
rawan kis ko KHabar unwan-e-aghaz-e-jahaan kya tha

غزل

رواںؔ کس کو خبر عنوان آغاز جہاں کیا تھا

جگت موہن لال رواںؔ

;

رواںؔ کس کو خبر عنوان آغاز جہاں کیا تھا
زمیں کا کیا تھا نقشہ اور رنگ آسماں کیا تھا

یہی ہستی اسی ہستی کے کچھ ٹوٹے ہوئے رشتے
وگرنہ ایسا پردہ میرے ان کے درمیاں کیا تھا

ترا بخشا ہوا دل اور دل کی یہ ہوسکاری
مرا اس میں قصور اے دستگیر عاصیاں کیا تھا

اگر کچھ روز زندہ رہ کے مر جانا مقدر ہے
تو اس دنیا میں آخر باعث تخلیق جاں کیا تھا

ہم اتنے فاصلے پر آ گئے ہیں عہد ماضی سے
خبر یہ بھی نہیں اجداد کا نام و نشاں کیا تھا

کسی برق تجلی پر ذرا سا غور کر لینا
اگر یہ جاننا ہو عالم روح رواںؔ کیا تھا