رواں دواں نئی تہذیب کا سفر رکھو
مگر نگاہ کو منزل سے با خبر رکھو
صداقتوں کی حفاظت کا حوصلہ ہو اگر
تو اپنے ہاتھوں سے نیزے پہ اپنا سر رکھو
تمہاری نسل کی پرواز میں خلل نہ پڑے
مت ان کے سامنے اپنے شکستہ پر رکھو
نہ غم کرو جو کڑی دھوپ کا سفر ہے حیات
جلو میں اپنے کوئی سایۂ شجر رکھو
سحر کے بھولے سر شام لوٹ آئیں گے
لویں بڑھا کے چراغوں کی بام پر رکھو
جو سچ لکھو گی تو پھر کچھ نہ لکھ سکو گی نسیمؔ
قلم میں معنی بدلنے کا بھی ہنر رکھو
غزل
رواں دواں نئی تہذیب کا سفر رکھو
ملکہ نسیم