روشنی تک روشنی کا راستہ کہہ لیجئے
رات کو شام و سحر کا فاصلہ کہہ لیجئے
دے گئی کتنی بہاریں ایک فصل آرزو
رنگ و بو کو موسموں کا خوں بہا کہہ لیجئے
گونجتی ہے عمر ویراں میں تمنا کی تھکن
حرف غم کو گنبد جاں کی صدا کہہ لیجئے
کند آخر کر گئیں تلوار کو خونریزیاں
دوستی کو دشمنی کی انتہا کہہ لیجئے
بال و پر کھلتے نہیں جن کے نشیمن کی طرف
ان اڑانوں کو ہواؤں کی غذا کہہ لیجئے
موسم گل دیکھیے کھلتے دریچوں کے تلے
بام و در کو شہر کی آب و ہوا کہہ لیجئے
کچھ نہیں ملتا صمدؔ پتھر کو تیشے کے سوا
آذری کو آذری نام خدا کہہ لیجئے

غزل
روشنی تک روشنی کا راستہ کہہ لیجئے
صمد انصاری