روشنی صبح کی یا شب کی سیاہی دیں گے
جو بھی دینا ہے تمہیں ظل الٰہی دیں گے
شیخ صاحب تو ازل سے ہیں دشمن میرے
کھا کے قرآں کی قسم جھوٹی گواہی دیں گے
ان سے رکھئے نہ کسی مہر و وفا کی امید
یہ تو ایسے ہیں کہ سورج کو سیاہی دیں گے
موسم لطف عطا ہے ابھی میخانے میں
جام کیا چیز ہے یہ تم کو صراحی دیں گے
تو حقارت کی نظر سے نہ انہیں دیکھ میاں
یہ پھٹے کپڑے تجھے خلعت شاہی دیں گے
ایسا لگتا ہے ہواؤں کے یہ پاگل جھونکے
ریت پر لکھی عبارت کو مٹا ہی دیں گے
اتنی مایوسی بھی اچھی نہیں کھوٹے سکو
اک نہ اک دن تمہیں ہم لوگ چلا ہی دیں گے
کرکے یہ فیصلہ ہم گھر سے چلے ہیں قیصرؔ
کچھ کھری کھوٹی تمہیں آج سنا ہی دیں گے

غزل
روشنی صبح کی یا شب کی سیاہی دیں گے
قیصر صدیقی