روشنی سایۂ ظلمات سے آگے نہ بڑھی
زندگی شمع کی اک رات سے آگے نہ بڑھی
اپنی ہستی کا بھی انسان کو عرفاں نہ ہوا
خاک پھر خاک تھی اوقات سے آگے نہ بڑھی
نام بد نام ہوا صنف غزل کا لیکن
شاعری رسم و روایات سے آگے نہ بڑھی
بے تکلف ہوئی تجدید ملاقات مگر
وہ بھی اک تشنہ ملاقات سے آگے نہ بڑھی
زلف بردوش وہ اک بار تو آئے تھے شکیلؔ
پھر کوئی رات بھی اس رات سے آگے نہ بڑھی
غزل
روشنی سایۂ ظلمات سے آگے نہ بڑھی
شکیل بدایونی