روشنی سانس ہی لے لے تو ٹھہر جاتا ہوں
ایک جگنو بھی چمک جائے تو ڈر جاتا ہوں
مری عادت مجھے پاگل نہیں ہونے دیتی
لوگ تو اب بھی سمجھتے ہیں کہ گھر جاتا ہوں
میں نے اس شہر میں وہ ٹھوکریں کھائی ہیں کہ اب
آنکھ بھی موند کے گزروں تو گزر جاتا ہوں
اس لئے بھی مرا اعزاز پہ حق بنتا ہے
سر جھکائے ہوئے جاتا ہوں جدھر جاتا ہوں
اس قدر آپ کے بدلے ہوئے تیور ہیں کہ میں
اپنی ہی چیز اٹھاتے ہوئے ڈر جاتا ہوں
غزل
روشنی سانس ہی لے لے تو ٹھہر جاتا ہوں
احمد کمال پروازی