روشنی رنگوں میں سمٹا ہوا دھوکا ہی نہ ہو
میں جسے جسم سمجھتا ہوں وہ سایا ہی نہ ہو
آئینہ ٹوٹ گیا چنتا ہوں ریزہ ریزہ
اسی آئینے میں میرا کہیں چہرہ ہی نہ ہو
میں تو دیوار کے اس پار رواں ہوں کب سے
کوئی دیوار کے اس پار بھی چلتا ہی نہ ہو
وہ جو سنتا ہے مری بات بڑے غور کے ساتھ
بعد جانے کے مرے مجھ پہ وہ ہنستا ہی نہ ہو
جاگتی آنکھوں میں کیوں پھیلتا جاتا ہے خلا
کھا گئی ہے جسے دوری ترا رستہ ہی نہ ہو
موڑ ہر راہ پہ پاؤں سے لپٹ جاتے ہیں
وہ مجھے چھوڑ کے چل دے کہیں ایسا ہی نہ ہو
اس کے ملنے پہ بھی محسوس ہوا ہے سرمدؔ
اس نے دیکھا ہی نہ ہو میں نے بلایا ہی نہ ہو
غزل
روشنی رنگوں میں سمٹا ہوا دھوکا ہی نہ ہو
سرمد صہبائی