روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا
اب جہاں دیوار ہے پہلے وہاں دروازہ تھا
درد کی اک موج ہر خواہش بہا کر لے گئی
کیا ٹھہرتیں بستیاں پانی ہی بے اندازہ تھا
رات ساری خواب کی گلیوں میں ہم چلتے رہے
کھڑکیاں روشن تھیں لیکن بند ہر دروازہ تھا
غزل
روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا
احمد مشتاق