EN हिंदी
روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا | شیح شیری
raushni rahti thi dil mein zaKHm jab tak taza tha

غزل

روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا

احمد مشتاق

;

روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا
اب جہاں دیوار ہے پہلے وہاں دروازہ تھا

درد کی اک موج ہر خواہش بہا کر لے گئی
کیا ٹھہرتیں بستیاں پانی ہی بے اندازہ تھا

رات ساری خواب کی گلیوں میں ہم چلتے رہے
کھڑکیاں روشن تھیں لیکن بند ہر دروازہ تھا