EN हिंदी
روشنی کچھ تو ملے جنگل میں | شیح شیری
raushni kuchh to mile jangal mein

غزل

روشنی کچھ تو ملے جنگل میں

محمد علوی

;

روشنی کچھ تو ملے جنگل میں
آگ لگ جائے گھنے جنگل میں

آپ کو شہر میں ڈر لگتا ہے
ہم تو بے خوف رہے جنگل میں

ایک اک شاخ زباں ہو جائے
کوئی آواز تو دے جنگل میں

پیڑ سے پیڑ لگا رہتا ہے
پیار ہوتا ہے بھرے جنگل میں

شہر میں کان ترستے ہی رہے
چہچہے ہم نے سنے جنگل میں

شام ہوتے ہی اتر آتے ہیں
شوخ پریوں کے پرے جنگل میں

شوخ ہرنوں نے قلانچیں ماریں
مور کے رقص ہوئے جنگل میں

اب بھی قدموں کے نشاں ملتے ہیں
گاؤں سے دور پرے جنگل میں

اب بھی پھرتی ہے کوئی پرچھائیں
رات کے وقت بھرے جنگل میں

خوب تھے حضرت آدم علویؔ
بستیاں چھوڑ گئے جنگل میں