روشنی کی ڈور تھامے زندگی تک آ گئے
چور عہد سامری کے جل پری تک آ گئے
واعظان خوش ہوس کی جھڑکیاں سنتے ہوئے
لا شعوری طور پر ہم سر خوشی تک آ گئے
ڈھول پیٹا جا رہا تھا اور خالی پیٹ ہم
ہنستے گاتے تھاپ سنتے ڈھولچی تک آ گئے
واہموں کی ناتمامی کا علاقہ چھوڑ کر
کچھ پرندے ہاتھ باندھے سبزگی تک آ گئے
بھائی بہنوں کی محبت کا نشہ مت پوچھیے
بے تکلف ہو گئے تو گدگدی تک آ گئے
چاک تہمت پر گھمایا جا رہا تھا عشق کو
جب ہمارے اشک خواب خودکشی تک آ گئے
گالیاں بکنے لگے غصے ہوئے لڑنے لگے
رقص کرتے کرتے ہم بھی خود سری تک آ گئے
اے حسیں لڑکی تمہارے حسن کے لذت پرست
کافری سے سر بچا کر شاعری تک آ گئے

غزل
روشنی کی ڈور تھامے زندگی تک آ گئے
افتخار فلک کاظمی