رونق ترے کوچے کی بڑھانے چلے آئے
ارباب جنوں حشر اٹھانے چلے آئے
اب اور نمائندگیٔ شب نہ کرو تم
ہم پرچم خورشید اڑانے چلے آئے
جب گرمیٔ شبنم سے بدن جلنے لگا ہے
ہم آگ کے دریا میں نہانے چلے آئے
جو لوگ مرا نقش قدم چوم رہے تھے
اب وہ بھی مجھے راہ دکھانے چلے آئے
جن سے مجھے پھولوں کی تھی امید وہی لوگ
کانٹے مری راہوں میں بچھانے چلے آئے
یہ گردش حالات کی ہے ذرہ نوازی
وہ خود ہی مجھے آج منانے چلے آئے
کیا یہ بھی کوئی انجمن ماہ وشاں ہے
راہیؔ بھی غزل اپنی سنانے چلے آئے
غزل
رونق ترے کوچے کی بڑھانے چلے آئے
اصغر راہی