رستے میں جتنے پیڑ ملے بے صدا ملے
گھر سے نکل پڑے تھے کہ تازہ ہوا ملے
انسان کی تلاش ہے رب کریم کو
انساں کی آرزو ہے کہیں پر خدا ملے
جو شخص لمحہ لمحہ تجسس کے باوجود
خود سے نہ مل سکا ہو زمانے سے کیا ملے
یہ زندگی کچھ ایسے مرے ہاتھ آ گئی
جیسے کسی فقیر کو سکہ پڑا ملے
دھرتی نے آنسوؤں کو پکارا ہے دوستو
بادل تمام اب کے سمندر سے جا ملے
ہر بار اسی سے ایک نیا عشق کیجیئے
جب بھی ملے وہ شخص تو بدلا ہوا ملے

غزل
رستے میں جتنے پیڑ ملے بے صدا ملے
مسعود میکش مراد آبادی