EN हिंदी
رستے لپیٹ کر سبھی منزل پہ لائے ہیں | شیح شیری
raste lapeT kar sabhi manzil pe lae hain

غزل

رستے لپیٹ کر سبھی منزل پہ لائے ہیں

سعید نقوی

;

رستے لپیٹ کر سبھی منزل پہ لائے ہیں
کھوے سفر ہی باندھ کے ساحل پہ لائے ہیں

پہلے تو ڈھونڈ ڈھانڈ کے لائے وجود کو
اور پھر ہنکا کے ذات کو محمل پہ لائے ہیں

اٹھتی ہے ہر فرات میں اک موج اضطراب
جب بھی وہ کارواں رہ قاتل پہ لائے ہیں

ساحل کی ریت سے کبھی جس کی بنی نہیں
اس کو سمندروں کے مقابل پہ لائے ہیں

دل ڈر گیا تھا وصل کی حدت کو سوچ کر
اذن خیال کو رہ کامل پہ لائے ہیں