رستے لپیٹ کر سبھی منزل پہ لائے ہیں
کھوے سفر ہی باندھ کے ساحل پہ لائے ہیں
پہلے تو ڈھونڈ ڈھانڈ کے لائے وجود کو
اور پھر ہنکا کے ذات کو محمل پہ لائے ہیں
اٹھتی ہے ہر فرات میں اک موج اضطراب
جب بھی وہ کارواں رہ قاتل پہ لائے ہیں
ساحل کی ریت سے کبھی جس کی بنی نہیں
اس کو سمندروں کے مقابل پہ لائے ہیں
دل ڈر گیا تھا وصل کی حدت کو سوچ کر
اذن خیال کو رہ کامل پہ لائے ہیں

غزل
رستے لپیٹ کر سبھی منزل پہ لائے ہیں
سعید نقوی