EN हिंदी
رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے | شیح شیری
rasta rokti KHamoshi ne kaun si baat sunani hai

غزل

رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے

عنبرین صلاح الدین

;

رستہ روکتی خاموشی نے کون سی بات سنانی ہے
رات کی آنکھیں جان رہی ہیں کس کے پاس کہانی ہے

آنکھ نے وحشت اوڑھی ہے یا منظر میں حیرانی ہے
دشت نے دامن جھاڑ کے پوچھا اب کیسی ویرانی ہے

منظر ہے کھڑکی کے اندر یا ہے کھڑکی سے باہر
گردوں کی گیرائی ہے یا خاک نے چادر تانی ہے

کوندے سے لپکے پڑتے ہیں چٹکی بھر نیلاہٹ سے
تاروں میں منظر کھلنے سے پہلے کی حیرانی ہے

سارے سنگ میل بھی منزل ہو سکتے ہیں بھید کھلا
ہاتھوں کی ریکھاؤں میں ہر منزل ایک نشانی ہے

آپ کہیں تو تین زمانے ایک ہی لہر میں بہہ نکلیں
آپ کہیں تو ساری باتوں میں ایسی آسانی ہے

روز و شب کے بندھن کھول کے وقت کا دریا چل نکلے
آپ کہیں تو دانائی ہے ہم کہہ دیں نادانی ہے

رات کی چادر تہہ ہونے تک دھوپ کا جادو کھلنے تک
دروازے کے بند کواڑوں سے اک بات چھپانی ہے

جتنے پل تک رقص کریں گی کرنیں برف کی قاشوں پر
کوہساروں کے دامن میں بھی تب تک ایک کہانی ہے