رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا
نگہ ناز میں یہ پچھلے پہر رنگ خمار
نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا
باغ جنت پہ گھٹا جیسے برس کے کھل جائے
یہ سہانی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا
ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن
چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن کیا کہنا
روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ
تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا
جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی یہ لچک
سر بسر آتش سیال بدن کیا کہنا
جس طرح جلوۂ فردوس ہواؤں سے چھنے
پیرہن میں ترے رنگینیٔ تن کیا کہنا
جلوہ و پردے کا یہ رنگ دم نظارہ
جس طرح ادھ کھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا
دم تقریر کھل اٹھتے ہیں گلستاں کیا کیا
یوں تو اک غنچۂ نورس ہے دہن کیا کہنا
دل کے آئینے میں اس طرح اترتی ہے نگاہ
جیسے پانی میں لچک جائے کرن کیا کہنا
لہلہاتا ہوا یہ قد یہ لہکتا جوبن
زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا
تو محبت کا ستارہ تو جوانی کا سہاگ
حسن لو دیتا ہے لعل یمن کیا کہنا
تیری آواز سویرا تری باتیں تڑکا
آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا
زلف شب گوں کی چمک پیکر سیمیں کی دمک
دیپ مالا ہے سر گنگ و جمن کیا کہنا
نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت
جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا
غزل
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
فراق گورکھپوری