EN हिंदी
رقص کرتے مستیوں کے سینکڑوں عالم گئے | شیح شیری
raqs karte mastiyon ke sainkaDon aalam gae

غزل

رقص کرتے مستیوں کے سینکڑوں عالم گئے

رگھوناتھ سہائے

;

رقص کرتے مستیوں کے سینکڑوں عالم گئے
محفل جم بن گئی جس انجمن میں ہم گئے

ہر الم سے ہر بلا سے مل گئی دل کو نجات
جب سے تیرا غم ملا ہے اپنے سارے غم گئے

آ گئی کیا جانئے پھر کس مسیحا دم کی یاد
درد پیہم رک گیا اشک مسلسل تھم گئے

چھا گئیں رندان محفل پر بلا کی مستیاں
بزم میں جس سمت چھلکاتے وہ جام جم گئے

کون کہتا ہے فضائے دہر اب برہم نہیں
کون کہتا ہے تری زلفوں کے پیچ و خم گئے

تھا وہ تکیہ ہم فقیروں کا ہی اے ہمدم جہاں
جبہ سائی کو ہزاروں اکبر اعظم گئے

رہ گئے اغیار سب حیران و ششدر اے امیدؔ
اس ادا سے آج ان کی انجمن میں ہم گئے