رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے
نقش قدم کو فرش خس و خاک چاہیے
مٹی تو دست کوزہ گراں میں ہے دیر سے
برتن میں ڈھالنے کے لیے چاک چاہیے
ہم ایسے سادہ لوح سے کیا مانگتی ہے زیست
اس کو حریف بھی کوئی چالاک چاہیے
کم فرصتی کا ان کی مجھے بھی لحاظ ہے
احوال دل کو دیدۂ نمناک چاہیے
ٹھہرے ہوئے ہیں اشک ہواؤں کی آنکھ میں
موسم کو اب کے وحشت بے باک چاہیے

غزل
رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے
نرجس افروز زیدی