رقیب جاں نظر کا نور ہو جائے تو کیا کیجے
زیاں دل کو اگر منظور ہو جائے تو کیا کیجے
وفا کرنے سے وہ مجبور ہو جائے تو کیا کیجے
محبت روح کا ناسور ہو جائے تو کیا کیجے
وہی چرچے وہی قصے ملی رسوائیاں ہم کو
انہی قصوں سے وہ مشہور ہو جائے تو کیا کیجے
زمانے سے گلا کیسا جب اپنے جسم کا سایہ
اندھیرے میں ہمیں سے دور ہو جائے تو کیا کیجے
خدا کو اتنا چاہوں تو خدا ہو جائے گا راضی
مگر وہ اور بھی مغرور ہو جائے تو کیا کیجے
منور جس کے دم سے تھیں ہماری زندگی میتاؔ
وہی مہتاب گر مستور ہو جائے تو کیا کیجے
غزل
رقیب جاں نظر کا نور ہو جائے تو کیا کیجے
'امیتا پرسو رام 'میتا