رقابتوں کی طرح سے ہم نے محبتیں بے مثال کی ہیں
مگر خموش اب جو ہو گئے ہیں عنایتیں ماہ و سال کی ہیں
کہاں سے دنیا کو آ گئے ہیں یہ طور اس کے طریق اس کے
مظاہرہ سب گریز کا ہے علامتیں سب وصال کی ہیں
نظر اٹھاؤ تو ہر طرف ہے بہشت حسن و جمال لیکن
کہاں وہ انداز اس کا لہجہ شباہتیں خد و خال کی ہیں
نگار فن ہے کہ مانگتی ہے لہو سے ہر دم خراج اپنا
ہمارا کیا ساتھ دے سکیں گی جو شہرتیں بے کمال کی ہیں
یہ جھکتی شاخیں سرکتے سائے مہکتی خوشبو بہکتے بادل
اٹھو انہیں جاوداں تو کر لیں کہ ساعتیں یہ وصال کی ہیں
یہ خود کلامی یہ بے نیازی یہ شہر والوں سے دور رہنا
امانتیں اعظمیؔ یقیناً کسی غم لا زوال کی ہیں
غزل
رقابتوں کی طرح سے ہم نے محبتیں بے مثال کی ہیں
شیث محمد اسماعیل اعظمی