EN हिंदी
رقابتوں کی طرح سے ہم نے محبتیں بے مثال کی ہیں | شیح شیری
raqabaton ki tarah se humne mohabbaten be-misal ki hain

غزل

رقابتوں کی طرح سے ہم نے محبتیں بے مثال کی ہیں

شیث محمد اسماعیل اعظمی

;

رقابتوں کی طرح سے ہم نے محبتیں بے مثال کی ہیں
مگر خموش اب جو ہو گئے ہیں عنایتیں ماہ و سال کی ہیں

کہاں سے دنیا کو آ گئے ہیں یہ طور اس کے طریق اس کے
مظاہرہ سب گریز کا ہے علامتیں سب وصال کی ہیں

نظر اٹھاؤ تو ہر طرف ہے بہشت حسن و جمال لیکن
کہاں وہ انداز اس کا لہجہ شباہتیں خد و خال کی ہیں

نگار فن ہے کہ مانگتی ہے لہو سے ہر دم خراج اپنا
ہمارا کیا ساتھ دے سکیں گی جو شہرتیں بے کمال کی ہیں

یہ جھکتی شاخیں سرکتے سائے مہکتی خوشبو بہکتے بادل
اٹھو انہیں جاوداں تو کر لیں کہ ساعتیں یہ وصال کی ہیں

یہ خود کلامی یہ بے نیازی یہ شہر والوں سے دور رہنا
امانتیں اعظمیؔ یقیناً کسی غم لا زوال کی ہیں