EN हिंदी
رنجشیں سب چھوڑ دیں سب سے لڑائی چھوڑ دی | شیح شیری
ranjishen sab chhoD din sab se laDai chhoD di

غزل

رنجشیں سب چھوڑ دیں سب سے لڑائی چھوڑ دی

ناشر نقوی

;

رنجشیں سب چھوڑ دیں سب سے لڑائی چھوڑ دی
عیب تھا سچ بولنا میں نے برائی چھوڑ دی

کوئے جاناں میں بھلا اب دیکھنے کو کیا ملا
سن رہا ہوں آپ نے بھی بے وفائی چھوڑ دی

ذہن میں ابھرے تھے یوں ہی بے وفا یاروں کے نام
لکھتے لکھتے کیوں قلم نے روشنائی چھوڑ دی

ہم سے پوچھو کس لیے خالی خزانے ہو گئے
شہزادوں نے فقیروں کی گدائی چھوڑ دی