EN हिंदी
رنج سے واقف خوشی سے آشنا ہونے نہ دے | شیح شیری
ranj se waqif KHushi se aashna hone na de

غزل

رنج سے واقف خوشی سے آشنا ہونے نہ دے

جعفر عباس صفوی

;

رنج سے واقف خوشی سے آشنا ہونے نہ دے
زندگی کو اپنے مقصد سے جدا ہونے نہ دے

عشق جب تک طے نہ کر لے منزلیں ایثار کی
درد کی لذت سے دل کو آشنا ہونے نہ دے

اور جو کچھ ہو ہمیں منظور ہے یا رب مگر
آدمی کو آدمی کا آسرا ہونے نہ دے

درد دل کہیے جسے اس کی تو یہ پہچان ہے
بھول کر جو ہاتھ سینے سے جدا ہونے نہ دے

عشق جس دل میں جڑیں اپنی جما لے ایک بار
عمر بھر نخل تمنا کو ہرا ہونے نہ دے

ناخدا کی کوششیں بیکار تدبیریں عبث
پار جب منجدھار سے بیڑا خدا ہونے نہ دے

راہ ہستی میں جو جعفرؔ ہر قدم پر موڑ ہیں
ہر کس و ناکس کو اپنا رہنما ہونے نہ دے