رنج و راحت وصل و فرقت ہوش و وحشت کیا نہیں
کون کہتا ہے کہ رہنے کی جگہ دنیا نہیں
اہل غم تم کو مبارک یہ فنا آمادگی
لیکن ایثار محبت جان دے دینا نہیں
حسن سر تا پا تمنا عشق سر تا سر غرور
اس کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں
ایک حالت پر زمانے میں نہ گزری عشق کی
درد کی دنیا بھی اب وہ درد کی دنیا نہیں
جس کے شعلوں سے تھی کل تک گرمیٔ بزم حیات
آج اس خاکستر دل سے دھواں اٹھتا نہیں
میں عدم اندر عدم میں ہوں جہاں اندر جہاں
ایک ہی دنیا ہو میری اے فراقؔ ایسا نہیں
غزل
رنج و راحت وصل و فرقت ہوش و وحشت کیا نہیں
فراق گورکھپوری