رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا
دامن میں کوئی پھول لیے ہے گلاب کا
چاروں طرف سے اس پہ نگاہوں کا بار ہے
مشکل ہے ان کو رخ سے اٹھانا نقاب کا
تسکین خاک دیتے ہیں رکھ کر جگر پہ ہاتھ
پہلو بدل رہے ہیں مرے اضطراب کا
مدت ہوئی وہی ہے زمانے کا انقلاب
نقشا کھنچا ہوا ہے مرے اضطراب کا
بچپن کہاں تک ان کی امنگوں کو روکتا
آخر کو رنگ پھوٹ ہی نکلا شباب کا
رونا خوشی کا روتی ہے بلبل بہار میں
چھڑکاؤ ہو رہا ہے چمن میں گلاب کا
جھلکی دکھا کے اور وہ بجلی گرا گئے
اچھا کیا علاج مرے اضطراب کا
خاک چمن پہ شبنم و گل کا عجب ہے رنگ
ساغر کسی سے چھوٹ پڑا ہے شراب کا
کھوئے ہوئے ہیں شاہد و معنی کی دھن میں ہم
یہ بھی جلیلؔ ایک جنوں ہے شباب کا
غزل
رنگت یہ رخ کی اور یہ عالم نقاب کا
جلیلؔ مانک پوری