رنگ اڑ کر رونق تصویر آدھی رہ گئی
غم غلط کرنے کی یہ تدبیر آدھی رہ گئی
دیکھنے والوں کی آنکھوں سے نہاں اک رخ رہا
پوری کھنچ کر بھی مری تصویر آدھی رہ گئی
مجھ سے میعاد اسیری کیا کرو گے پوچھ کر
دیدہ ور ہو جانچ لو زنجیر آدھی رہ گئی
ہوش تھا وحشت میں تو صحرا نوردی کا مجھے
بے خودی میں گردش تقدیر آدھی رہ گئی
کہتے ہیں اس میں ہے ساز حسن پر ہے سوز عشق
دیکھ کر گلبانگ قدر میر آدھی رہ گئی
نیم باز آنکھوں کے قرباں یوں کنکھیوں سے نہ دیکھ
اوچھے واروں سے زد ہر تیر آدھی رہ گئی
وہ سراپا حسن ہے اور اس کا اک رخ ہے سیاہ
چاند سے محبوب کی تعبیر آدھی رہ گئی
جب جوانی جوش پر آئی تو وہ رخصت ہوے
زندگی کے قصر کی تعمیر آدھی رہ گئی
غور ثے فطرت نے دیکھا بعد تخلیق حضور
دو جہاں کے حسن کی تخمیر آدھی رہ گئی
سحرؔ ان کی لنترانی سن کے گوش ہوش ثے
آرزوے عاشق دل گیر آدھی رہ گئی
غزل
رنگ اڑ کر رونق تصویر آدھی رہ گئی
سحر عشق آبادی