رنگ لاتی بھی تو کس طور جبیں سائی مری
جب خود اس کو نہ تھی درکار شناسائی مری
یہ مری چیز ہے سو اس کا بھروسہ ہے مجھے
خود مرے کام نہ آئے گی مسیحائی مری
اس نے اک بار تو جھانکا بھی تھا مجھ میں لیکن
اس سے دیکھی نہ گئی وسعت تنہائی مری
تم یہ کیا سوچ کے گزری تھی مرے ماضی سے
تم یہ کیا سوچ کے شادابی اٹھا لائی مری
بحر پایاب سمجھ کے یہاں اترو نہ ابھی
میرا دل خود بھی نہیں جانتا گہرائی مری
تیری خوشبو تری تاثیر جدا ہے مجھ سے
تیری مٹی سے نہ ہو پائے گی بھرپائی مری
غزل
رنگ لاتی بھی تو کس طور جبیں سائی مری
راہل جھا